چند بڑے گناہ
حجِ فرض میں تاخیر کرنے کا گناہ
اسلام کے ارکان میں “حج” ایک اہم رکن ہے اور یہ ایک ایسی عبادت ہے جس میں انسان کا بدن بھی خوب استعمال ہوتا ہے اور مال بھی خرچ ہوتا ہے ، اور اس عبادت میں عاشقانہ شان پائی جاتی ہے، کیونکہ حج میں اللہ تعالیٰ نے ایسے ارکان رکھے ہیں جن کے ذریعہ اللہ تعالیٰ سے عشق ومحبت کا اظہار ہوتا ہے۔اور حج نہ صرف بذاتِ خود ایک اعلیٰ عبادت ہے بلکہ بہت سی عبادتوں کا مجموعہ اور بہت سی پاکیزہ صفات کا سرچشمہ ہے ، یہی وجہ ہے کہ حج کی یہ دل کش عبادت تمام عبادتوں میں ایک منفرد اور نرالی شان رکھتی ہے ۔ قرآنِ کریم نے بہت سے مواقع پر حج کی اہمیت اور فضیلت کو واضح الفاظ میں بیان فرمایا ہے ، چنانچہ :
حج کی فرضیت واہمیت
اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے :
اِنَّ اَوَّلَ بَیْتٍ وُّضِعَ لِلنَّاسِ لَلَّذِیْ بِبَکَّۃَ مُبَارَکاً وَّھُدًی لِّلْعٰلَمِیْنَ (۹۶) فِیْہِ اٰیٰتٌ بَیِّنٰتٌ مَقَامُ اِبْرَاھِیْمَ ج وَمَنْ دَخَلَہُ کَانَ آمِناًط وَلِلّٰہِ عَلَی النَّاسِ حِجُّ الْبَیْتِ مَنِ اسْتَطَاعَ اِلَیْہِ سَبِیْلاً ط وَمَنْ کَفَرَ فَاِنَّ اللّٰہَ غَنِیٌّ عَنِ الْعٰلَمِیْنَ(آل عمران :۹۶؍۹۷)۔
ترجمہ :حقیقت یہ ہے کہ سب سے پہلا گھر جو لوگوں (کی عبادت) کے لئے بنایا گیا یقینی طورپر وہ ہے جو مکہ میں واقع ہے ، (اور) بنانے کے وقت ہی سے برکتوں والا اور دنیا جہان کے لوگوں کے لئے ہدایت کا سامان ہے ۔اس میں روشن نشانیاں ہیں ، مقامِ ابراہیم ہے ، اور جو اس میںداخل ہوتا ہے امن پاجاتا ہے ۔اور لوگوں میں سے جو لوگ بیت اللہ تک آنے کی استطاعت رکھتے ہوں ان پر اللہ تعالیٰ کے لئے اس گھر کا حج کرنا فرض ہے ۔اور اگر کوئی انکار کرے تو اللہ تعالیٰ دنیا جہان کے تمام لوگوں سے بے نیاز ہے ۔(آسان ترجمۂ قرآن:۱/ ۲۱۰ )
دوسری جگہ ارشا دہے :
وَاَذِّنْ فِی النَّاسِ بِالْحَجِّ یَاْتُوْکَ رِجَالًا وَّعَلٰی کُلِّ ضَامِرٍ یَّاْ تِیْنَ مِنْ کُلِّ فَجٍّ عَمِیْقٍ۔(الحج :۲۷)
لوگوں میں حج کا اعلان کردو،کہ وہ تمہارے پاس پیدل آئیں ، اور دور دراز کے راستوں سے سفر کرنے والی اُن اونٹنیوں پر سوار ہوکر آئیں جو (لمبے سفر سے) دبلی ہوگئی ہوں ۔ (آسان ترجمۂ قرآن :۲/ ۱۰۲۲)
لہٰذا ہر صاحبِ استطاعت مسلمان پر حج فرض ہے ، اور صاحبِ استطاعت وہ مسلمان کہلاتا ہے جو عاقل ، بالغ اور صحتمند ہو، اور اس کے پاس اس کی اصلی اور بنیادی ضروریات سے زائد اتنا مال ہو جس سے وہ بیت اللہ تک آنے جانے اور وہاں کے قیام وطعام کا خرچ برداشت کرسکے ، اور اپنی واپسی تک ان اہل وعیال کے خرچ کا انتظام بھی کرسکے جن کا نان ونفقہ اس کے ذمہ واجب ہے ، اور آنے جانے کاراستہ بھی محفوظ اور مامون ہو۔ عورت کے لئے چونکہ بغیر محرم کے سفر کرنا شرعاً جائز نہیں اس لئے وہ حج پر اس وقت قادرسمجھی جائے گی جب اس کے ساتھ کوئی محرم حج کرنے والاہو، خواہ محرم اپنے خرچ سے حج کررہا ہو یا یہ عورت اس کا سفر خرچ بھی برداشت کرے ۔(تفسیر معارف القرآن :۲/۱۲۲)
حج کے فضائل کے متعلق چند احادیثِ طیبہ
احادیث طیبہ میں حج کے متعدد فضائل بیان ہوئے ہیں : مثلاً
۱۔۔۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد ہے کہ جو شخص اللہ تعالیٰ کے لئے اس طرح حج کرے کہ اس میں نہ کوئی فحش بات ہو اور نہ حکم عدولی ہو وہ حج سے ایسا واپس ہوتا ہے جیسا اُس دن تھا جس دن ماں کے پیٹ سے پیدا ہواتھا۔ (مشکوٰۃ شریف )
۲۔۔۔حضور اقدس صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد ہے کہ نیکی والے حج یعنی حجِ مبرور ومقبول کا بدلہ جنت کے سواکچھ نہیں ۔(مشکوٰۃ شریف)
۳۔ ۔۔ حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشادفرمایا : کوئی دن ایسا نہیں جس میں اللہ تعالیٰ عرفہ کے دن سے زیادہ بندوں کو جہنم سے بری فرماتے ہوں ، (یعنی جتنی کثیر مقدارمیں عرفہ کے دن جہنم سے خلاصی ہوتی ہے اتنی کثیر تعداد کسی اور دن کی نہیں ہوتی ) ۔ حق تعالیٰ شانہ (دنیاکے ) قریب ہوتے ہیں ، پھر فخر کے طورپر فرماتے ہیں : یہ بندے کیا چاہتے ہیں ؟ (صحیح مسلم )
۴۔۔۔ حضرت جابر بن عبداللہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشادفرمایا: جس شخص نے ایک دن حالتِ احرام میں تلبیہ کہتے ہوئے گزارا یہاں تک کہ (اس دن کا)سورج غروب ہوگیاتو وہ سورج اس کے گناہ لے کر غروب ہوگا اور وہ مُحرِ م ایسا (گناہوں سے پاک) ہوجائے گاجیسے (اس وقت تھا جب) اس کی ماں نے اس کوجناتھا۔(ابن ماجہ)
۵۔۔۔ حضرت جابر بن عبداللہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشادفرمایا :حج اور عمرہ کرنے والے اللہ تعالیٰ کے مہمان ہیں ، اگر وہ اللہ تعالیٰ سے دعاکریں تو وہ ان کی دعا قبول فرمائے ، اور اگر وہ اس سے مغفرت مانگیں تو وہ ان کی مغفرت فرمائے ۔ (ابنِ ماجہ)
یہ چند فضائل ہم نے ذکر کئے ہیں ، ورنہ ذخیرئہ احادیث میں اور بھی متعدد فضائل بیان کئے گئے ہیں ، اور جس طرح حج اداکرنے کے بے شمار فضائل اور فوائد قرآن وحدیث میں آئے ہیں ، اسی طرح جو لوگ حج کرنے کی قدرت اور استطاعت رکھتے ہیں جس کی وجہ سے ان پر حج کرنا فرض ہوچکا ہے اس کے باوجود وہ حج نہیں کرتے ان کے لئے احادیثِ مبارکہ میں بڑی سخت وعیدیں آئی ہیں ۔ذیل میں چند احادیث نقل کی جاتی ہیں:
حج فرض نہ کرنے کی مذمت کے متعلق چند احادیثِ طیبہ
حدیث نمبر ۱
عن علی قال :قال رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم : “من ملک زادا وراحلۃ تبلغہ الی بیت اللہ ولم یحج فلاعلیہ أن یموت یھودیا، أونصرانیا ، وذلک أن اللہ یقول فی کتابہ “(وَلِلّٰہِ عَلَی النَّاسِ حِجُّ الْبَیْتِ مَنِ اسْتَطَاعَ اِلَیْہِ سَبِیْلاً)(آل عمران:۹۷)(سنن الترمذی :۳:۱۶۷)
ترجمہ :حضرت علی رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا : جس شخص کے پاس سفر حج کا ضروری سامان ہو اور اس کی سواری میسر ہو جو بیت اللہ تک اس کو پہنچا سکے اور پھر وہ حج نہ کرے ، تو کوئی فرق نہیں کہ وہ یہودی ہوکر مرے یا نصرانی ہوکر۔ اور یہ اس لئے کہ اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے : ــ”اللہ تعالیٰ کے لئے بیت اللہ کا حج فرض ہے ان لوگوں پر جو اس تک جانے کی استطاعت رکھتے ہوں۔”(ترمذی)
تشریح
مطلب یہ ہے کہ حج کرنے کی استطاعت رکھنے کے باوجود جو لوگ حج نہ کریں ان کا اس حالت میں مرنا اور یہودی یا عیسائی ہوکر مرنا گویا برابر ہے (معاذ اللہ ) ۔ اور حج نہ کرنے والوں کو یہو د ونصاریٰ کے مشابہ قرار دینے میںراز یہ ہے کہ عیسائی اور یہودی حج نہیں کیا کرتے تھے ، بہر حال آیت کریمہ اور حدیثِ مبارکہ کا مطلب یہ ہے کہ بغیر حج کئے مرنے والے بڑے ناشکرے اور نافرمان بندے ہیں ، ان کی اللہ تعالیٰ کوکوئی پرواہ نہیں ۔
حدیث نمبر ۲
عن ابن عمر قال : من کا یجد وھو موسر صحیح لم یحج کان سیماہ بین عینیہ کافرا ثم تلا ھذہ الآیۃ (وَمَنْ کَفَرَ فَاِنَّ اللّٰہَ غَنِیٌّ عَنِ الْعٰلَمِیْنَ )(الدرالمنثور ۔ ۲/ ۲۷۵)
ترجمہ : حضرت ابن عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہما کا ارشاد ہے : جوشخص تندرست ہو اور پیسہ والا ہو کہ حج کے لئے جانے کی اس میں استطاعت ہو اور پھر بغیر حج کئے وہ مرجائے تو قیامت کے دن اس کی پیشانی پر “کافر”کالفظ لکھا ہوا ہوگا۔اس کے بعد انہوں نے یہ آیت شریفہ “وَمَنْ کَفَرَ فَاِنَّ اللّٰہَ غَنِیٌّ عَنِ الْعٰلَمِیْنَ “پڑھی ۔(درِ منثور)
تشریح
حج کی استطاعت کے باوجود حج کئے بغیر مرنے والا اگرچہ چاروں اماموں کے نزدیک کافرنہیں ہوتا جب تک کہ حج کا انکار نہ کرے ، لیکن یہ وعیدیں کیا کچھ کم ہیں ! اور اس میں شک نہیں کہ حج فرض ہونے کے باوجود حج نہ کرنا کافرانہ طرزِ عمل ہے جو سخت گناہ ہے ، جس سے توبہ کرنا واجب ہے اور حج فرض اداکرنے کی فکر کرنا لازم ہے ۔
حدیث نمبر ۳
من کان لہ مال تبلغہ حج بیت ربہ، أوتجب علیہ فیہ الزکاۃ فلم یفعل سأل الرجعۃ عند الموت۔”ت عن ابن عباس “(کنز العمال ۔۵/ ۲۰)
ترجمہ :حضرت ابن عباس ضی اللہ تعالیٰ عنہما فرماتے ہیں : جس شخص کے پاس اتنا مال ہو کہ حج کرسکے لیکن حج نہ کرے ، یا اتنا مال ہو جس پر زکوۃ واجب ہو لیکن زکوٰۃ ادانہ کرے ، وہ مرتے وقت دنیا میں واپس آنے کی تمنا کرے گا۔(کنزالعمال)
اس کے علاوہ اور بھی کئی احادیث میںاستطاعت کے باوجود حج ادانہ کرنے پر بڑی سخت وعیدیں بیان کی گئی ہیں ، اس لئے جس مسلمان مرد وعورت پر حج فرض ہو اس کو جلد از جلد اس فرض کی ادائیگی کی فکر کرنی چاہیئے ، کیونکہ زندگی کا کوئی بھروسہ نہیں کہ کب موت آجائے اور آدمی ان خطرناک وعیدوں کا مستحق بن جائے ۔
حجِ فرض ادانہ کرنے کے مختلف بہانے
ہمارے معاشرے میں بعض لوگ حج فرض ہونے کے باوجود حج اداکرنے سے بڑی غفلت کرتے ہیں اور مختلف قسم کی تاویلیں اور بہانے پیش کرتے ہیں جو اوپر ذکر کردہ احادیث کی روشنی میں بالکل باطل ہیں ، ذیل میں اس کی چند مثالیں بیان کی جاتی ہیں:
ماحول نہ ہونے کا بہانہ
بعض لوگوں کوجب توجہ دلائی جائے کہ آپ پر حج فرض ہے اسے جلدی اداکریں تو وہ یہ عذر پیش کرتے ہیں کہ ہمارے گھر میں ماحول نہیںہے اور ہمارے یہاں اس قسم کی باتیں نہیں ہوتیں ۔ یہ سراسر بہانہ ہے جو آخرت میںہرگز نہیں چلے گا۔
دیگر فرائض ادانہ کرنے کا بہانہ
بعض لوگ یہ عذر پیش کرتے ہیں کہ پہلے ہم نماز ، روزہ وغیرہ کے تو پابند ہوجائیں پھر ہم حج بھی کرلیں گے ، اور اسی میںساری زندگی گزرجاتی ہے ، نہ حج کرتے ہیں اور نہ نماز ، روزہ کے پابند ہوتے ہیں۔حالانکہ حج کا فرض ہونا نماز روزہ کی پابندی پر موقوف نہیں ہے ، نماز الگ فریضہ ہے ، حج ایک الگ فریضہ ہے ، دونوں کو اپنی اپنی جگہ انجام دینا ضروری ہے، ایک کی وجہ سے دوسرے کو چھوڑنا اپنے آپ کو دوہرے گناہ میں مبتلا کرنا ہے ۔ اور اگر دیکھا جائے تو ایک آدمی جو نمازوں کا پابند نہ ہو اور دیگر عبادتوں میں دل نہ لگتا ہواور وہ حج کے لئے چلا جائے تو اس کی اچھی تربیت ہوسکتی ہے ، کیونکہ عبادت کے ماحول میں انسان عبادتوں کا عادی بن سکتا ہے ۔
بڑھاپے کا انتظار کرنا
بعض لوگ جوانی کے زمانہ میں یہ سوچ کر حج نہیں کرتے کہ حج کے بعد کوئی گناہ نہیں کرنا ، لہٰذا آخری عمر میں حج کریں گے تاکہ اس کے بعد پھر کوئی گناہ نہ کریں ۔یہ بھی محض ایک بہانہ ہے ، کیونکہ موت کا وقت تو کسی کو معلوم نہیں ، اور کیامعلوم حج کا موقع بھی ملے یانہ ملے ، اس وقت صحت وہمت ہو یا نہ ہو ، مال ہو یانہ ہو ۔
بچیوں کی شادی کا انتظار کرنا
کچھ لوگ یہ تاویل پیش کرتے ہیں کہ پہلے بچیوں کی شادی کرکے اس فرض سے فارغ ہوجائیں پھر حج کریں گے ، یہ تاویل بھی شرعاً قابلِ قبول نہیں ، حج فرض ہونے کے بعد بچیوں کی شادی کی وجہ سے تاخیر کرنا جائز نہیں ۔
والدین کو حج کروانا
بعض لوگ یہ سمجھتے ہیں کہ جب تک اولاد اپنے ماں باپ کو حج نہ کرائے اور والدین حج نہ کرلیں اس وقت تک اولاد حج نہیں کرسکتی ، اس لئے پہلے وہ والدین کو حج کرانے کی فکرمیں رہتے ہیں ، جبکہ والدین پر حج فرض نہیں ہوتا، اور وہ اپنے اعذار کی وجہ سے حج کے لئے تیار بھی نہیں ہوتے ، نتیجہ یہ کہ اولاد اپنا حجِ فرض ادانہیں کرتی ۔ یہ بھی سراسر غلط ہے ۔ ماں باپ کو حج کرانا اولاد پرفرض نہیں ہے ، لہٰذا اگر اولادپر حج فرض ہوتو پہلے اپنا حج کرنا چاہئے ، پھر اگر اللہ پاک مزید استطاعت دیں تو والدین کو بھی حج کرادیں ۔
بغیر بیوی کے حج نہ کرنا
بعض لوگ وہ ہیں جن پر حج فرض ہے اور ان کے پاس اتنا مال ہے جس سے وہ خود حج کرسکتے ہیں ، لیکن اپنی بیوی کو حج پر لے جانے کی قدرت نہیں رکھتے ، پھر وہ بیوی کے اصرار کی وجہ سے یا اپنی مرضی سے اس انتظار میں رہتے ہیں کہ جب بیوی کو ساتھ لے جانے کے قابل ہوں گے اس وقت میاں بیوی دونوں ساتھ حج کرنے جائیں گے ۔ یہ بھی غلط ہے ۔بیوی کو ساتھ لے جانے کے انتظار میں حج کو مؤخر کرنا درست نہیں ، اور بیوی کے لئے بھی جائز نہیں کہ وہ خاوند کو اپنی وجہ سے حجِ فرض اداکرنے سے روکے ۔
بچے چھوٹے ہونے کا بہانہ کرنا
بعض لوگ خصوصاً عورتیں یہ بہانہ بناتی ہیں کہ ابھی بچے چھوٹے ہیں ، انہیں اکیلا چھوڑ کر نہیں جاسکتے ۔یہ بھی محض ایک بہانہ ہے ، دنیا وی مقاصد کے لئے کہیں جانا ہوتو بچوں کا سب انتظام ہوجاتا ہے ، لیکن حج کے موقع پر بچوں کے چھوٹا ہونے کا بہانہ بنایا جاتا ہے جو درست نہیں ۔
خلاصہ یہ کہ ذکر کردہ باتیں غلط تاویلات اور حج سے جی چرانے کے محض بہانے ہیں ، ان کی وجہ سے حجِ فرض میں تاخیر کرنا جائز نہیں ، بلکہ حج فرض ہونے کے بعد جلد از جلد اداکرنے کی فکر کرنی چاہئے، ایک حدیث شریف میں آتا ہے :
تعجلوا الخروج الی مکۃ فان أحدکم لا یدری مایعرض لہ من مرض اوحاجۃ “الدیلمی عن ابن عباس” (کنزالعمال ۔ ۵/ ۱۶)
ترجمہ : حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ حج میں جلدی کرو، کسی کو کیا خبر کہ بعد میں کوئی مرض پیش آجائے یا کوئی اور ضرورت درمیان میں لاحق ہوجائے ۔ (کنز العمال)
اللہ تعالیٰ مسلمانوں کو اس حدیث پر عمل کرنے اور حج فرض ہونے کے بعد اس کو ادانہ کرنے کے گناہ سے بچنے کی توفیق عطافرمائے ۔ آمین!
٭٭٭