رجوع الی اللہ اورتوبہ کی اہمیت اورفضیلت
(آخری قسط)
آخرت میں حقوق العبادکاحساب
حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ حضورِاقدس صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم نے دریافت فرمایا: کیاتم جانتے ہو،مفلس کون ہے؟ صحابہؓ نے عرض کیاکہ ہم تواسے مفلس سمجھتے ہیں،جس کے پاس درہم نہ ہواورمال نہ ہو،یہ سن کرآنحضرت صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم نے فرمایاکہ بلاشبہ میری امت کا(حقیقی )مفلس وہ ہوگاجوقیامت کے روزنمازاور روزے اورزکوٰۃ لے کرآئے گا(یعنی اُس نے نمازیں پڑھی ہوں گی اور روزے بھی رکھے ہوں گے،زکوٰۃ بھی اداکی ہوگی) اور(ان سب کے باوجود)اس حال میں (میدانِ حشرمیں)آئے گاکہ کسی کوگالی دی ہوگی اورکسی کوتہمت لگائی ہوگی اورکسی کاناحق مال کھایاہوگا،اورکسی کاناحق خون بہایاہوگااورکسی کوماراہوگا(اورچونکہ قیامت کادن فیصلے کادن ہوگا) اس لئے اس شخص کافیصلہ اس طرح کیاجائے گاکہ جس جس کواُس نے ستایاتھااورجس جس کی حق تلفی کی تھی،سب کواس کی نیکیاں بانٹ دی جائیں گی،کچھ اس کی نیکیاں اس حقدارکودی جائیں گی اورکچھ اس حقدار کو دیدی جائیں گی،پھراگرحقوق پوراہونے سے پہلے اس کی نیکیاں ختم ہوجائیں گی توحق داروں کے گناہ اس کے سرپرڈال دئیے جائیں گے، پھر اس کودوزخ میں ڈال دیاجائے گا۔(مسلم شریف)
دوسری حدیث میں ہے کہ آنحضرت صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم نے ارشادفرمایاکہ جس نے اپنے کسی بھائی پرظلم کررکھاہوکہ اس کی بے آبروئی کی ہویااورکچھ حق تلفی کی ہوتوآج ہی(اس کاحق اداکرکے یامعافی مانگ کر)اس دن سے پہلے حلال کرالیوے،جس روزنہ دینارہوگانہ درہم ہوگا (پھرفرمایاکہ)اگراس کے کچھ اچھے عمل ہوں گے توبقدرِظلم اس سے لے لئے جائیں گے اوراگراس کی نیکیاں نہ ہوئیں تومظلوم کی برائیاں لے کراس ظالم کے سرکردی جائیں گی۔(بخاری شریف)
ان دونوں حدیثوں سے معلوم ہواکہ صرف پیسہ، کوڑی دبالینا ہی ظلم نہیں ہے،بلکہ گالی دینا،تہمت لگانا،بے جامارنا،بے آبروئی کرنابھی ظلم اور حق تلفی ہے،بہت سے لوگ سمجھتے ہیں کہ ہم دیندارہیں مگر ان باتوں سے ذرانہیں بچتے،یہ یادرکھوکہ خدااپنے حقوق کوتوبہ واستغفارسے معاف فرمادیتاہے،مگربندوں کے حقوق جب ہی معاف ہوں گے جبکہ ان کواداکردے یااس سے معافی نہ مانگ لے۔
اوریہ بھی واضح رہے کہ معافی وہ معتبرہے جومعاف کرنے والا بالکل رضاورغبت کے ساتھ اپنے نفس کی خوشی سے معاف کردے،دل کے اُوپراُوپرکی معافی جومروّت میں کردی جائے،یایہ سمجھتے ہوئے کوئی شخص معاف کردے کہ ان کودیناتوہے ہی نہیں،چلو!ظاہری طورپر معاف ہی کردیں، تاکہ تعلقات خراب نہ ہوں، تو ایسی معافی کاکچھ اعتبار نہیں۔
احقرسے دہلی کے ایک صاحب نے دریافت کیاکہ میرے ذمّہ بعض عزیزوں کاقرضہ تھا،وہ انہوںنے معاف کردیا،توکیامعاف ہوگیا؟ میں نے کہا: جب انہوں نے معاف کردیاتوآپ کے دل میں تردّد کیوں ہے؟آپ کے دل میں تردّدکاہونااس بات کی دلیل ہے کہ انہوں نے خوشی سے معاف نہیں کیا۔
پھرمیں نے ان سے پوچھاکہ معاف کرنے کے بعدانہوں نے کسی سے اس بات کی شکایت تونہیں کی کہ ہمارے پیسے فلاں شخص نے دبالئے؟کہنے لگے: ہاں! ایساتوہواہے،میں نے کہا: معاف کردینے کے بعدشکایت کیوں کی؟معلوم ہوتاہے کہ انہوں نے یوں ہی اُوپراُوپر سے معافی کے الفاظ کہہ دئیے تھے،نفس کی خوشی سے معاف نہیں کیا،اور اس طرح کی معافی معتبرنہیں ہے،لہٰذاآپ ان کاقرضہ اداکرنے کی فکرکریں۔
حق العبادکے بارے میں چندتنبیہات
(۱)۔۔۔۔۔جس کسی نے اپنامال تھوڑاہویابہت،خواہ کسی بھی جنس سے ہو،کسی کے پاس حفاظت کے لئے رکھدیا،یہ مال اس کے پاس امانت ہے،اسے خوب اچھی طرح حفاظت سے رکھے اورامانت رکھنے والاجب مانگے دے دے،اگردینے سے انکارکردیااوروہ ہلاک ہوگئی تواس کاضمان لازم ہوگا۔
(۲)۔۔۔۔۔امانت کی چیزاگرخرچ کرلے یاہلاک کردے تب بھی ضمان لازم ہوگا۔
(۳)۔۔۔۔۔اگرکسی شخص نے کسی سے ’’عاریۃً‘‘(مانگے کے طور پر)کوئی چیزلی،پھرہلاک کردی تواس کابھی ضمان لازم ہوگا۔
(۴)۔۔۔۔۔اگرکوئی مہمان یاگاہک گھریادوکان پراپنی کوئی چیز بھول جائے تووہ امانت ہے،اس کاخرچ کرلیناجائزنہیں،صاحبِ مال کے آنے کاانتظارکرے اورآنے جانے والوں سے تلاش بھی کروائے اورپتہ چلوائے کہ یہ شخص کہاں ہے؟جب ناامیدی ہوجائے تواس کی طرف سے صدقہ کرے،لیکن اگروہ کبھی آگیااورصدقہ پرراضی نہ ہواتو اس کی قیمت اداکرناواجب ہوگااورصدقہ اپنی طرف سے ہوجائے گا۔
(۵)۔۔۔۔۔اگرکوئی شخص کوئی گری پڑی چیزکہیں پالے تومالک کوپہنچانے کی نیت سے اٹھاسکتاہے اوراگرضائع ہونے کااندیشہ ہوتو اٹھاناواجب ہے،اٹھالینے کے بعداعلان کرے کہ کسی کی کوئی چیزگری پڑی ہو تو لے لے،جس جگہ چیزملی ہے اس کے قریب جوآبادیاں ہوں، ان میں اعلان کرے اوراتناعرصہ اعلان کرے کہ یقین ہوجائے کہ اب مالک نہیں آئے گا،اس کے بعدمالک کی طرف سے مستحقینِ زکوۃ کوصدقہ کردے،اگرخودصاحب نصاب نہیں تواپنے اوپربھی خرچ کرسکتاہے، لیکن ہرصورت میں اگرصاحبِ مال آگیاتومال کی قیمت اداکرنالازم ہوگااورصدقہ کاثواب صدقہ کرنے والے کومل جائے گا،جب کوئی چیز اُٹھائے توگواہ بنالے کہ حفاظت کرنے کے لئے اورمالک تک پہنچانے کے لئے اٹھارہاہوں،اگراس جگہ گواہ نہ ملیں توآبادی میں پہنچکرگواہ بنالے کہ یہ چیزمیں مالک تک پہنچانے کے لئے اٹھالایاہوں،اس کا فائدہ یہ ہوگاکہ لوگ چوری کرنے یاغصب کرنے کی تہمت نہ رکھیں گے، اگر کوئی ایسی چیزپڑی ملی یاکوئی شخص دوکان یاگھرپرچھوڑکرچلاگیاجوزیادہ دیرباقی نہیں رہ سکتی،جب خراب ہونے لگے تواس کوصدقہ کردے،زیادہ دیرانتظارکی ضرورت نہیں۔
(۶)۔۔۔۔۔اگرکوئی شخص قرض دیکربھول جائے یالحاظ کی وجہ سے طلب نہ کرے یاگواہ نہ ہونے کی وجہ سے دعویٰ نہ کرسکے،یاکسی بھی طرح کسی کی کوئی چیزاپنے قبضہ میں آجائے اورصاحبِ مال کواس کاعلم ہوتب بھی اس کاپہنچانااوراداکرناواجب ہے۔
(۷)۔۔۔۔۔حکومتوں کے قانون کی آڑلیکرکسی کاحصۂ میراث دبالینا، حرام ہے،نیزجسے شرعاًحصہ نہ پہنچتاہو،اس کوکسی حکومت کے قانون کی وجہ سے حصہ لینابھی حرام ہے(مثلاًپوتے کوچچاکی موجودگی میں داداکی میراث شرعاًنہیں پہنچتی،مگرجوحکومتیں شریعت کے خلاف چلتی ہیں،وہ دلادیتی ہیں،ان کے دلادینے سے لے لیناحلال نہ ہوگا۔)
(۸)۔۔۔۔۔اگرکوئی شخص وفات پاگیااوراس کاکوئی قرض کسی کی طرف ہے یامرنے والے کااورکوئی مال کسی طرح قبضہ میں آیاہواہے، مثلاًاس نے امانت رکھی تھی یاچوری کرکے اس کامال لے لیاتھایاغصب کرکے لیاتھا،تواس کاوارثوں تک پہنچانافرض ہے(جیساکہ اس کی زندگی میں خوداس کودینافرض تھا۔)
(۹)۔۔۔۔۔اوقاف کے مال اورعمارات سب امانت ہوتے ہیں، وقف کرنے والوں کی شرطوں کے خلاف تصرّف کرناخیانت ہے،بہت سے لوگ جن کااوقاف پرقبضہ ہوتاہے،ایسے لوگوں پربھی اوقاف کامال خرچ کردیتے ہیں،جن پرواقف کی شرائط کے اعتبارسے خرچ کرناجائز نہیں ہوتا،یااپنے ملنے والوں کوشرائط کے خلاف،اوقاف کی عمارتوں میں ٹھہرادیتے ہیں،یاان کومختصرسے کرایہ پردے دیتے ہیں،یہ سب حرام ہے اورخیانت ہے۔
(۱۰)۔۔۔۔۔بعض لوگوں کے پاس وقف کامکان کرایہ پرہوتاہے اور وہ پراناکرایہ ہی دیتے رہتے ہیں،حالانکہ ہردورمیں وہی کرایہ دینا لازم ہے جو مکان کے مناسبِ حال ہو،اگروقف کاذمہ دار اس میں رعایت دے یاچشم پوشی کرے تب بھی کم کرایہ پراکتفاء کرناحلال نہیں ہے،یہ دیکھ لیں کہ اس طرح مکان اگرکسی کی ملکیت میں ہوتاتووہ کتنے کرایہ پرملتا؟اس کے موافق کرایہ پردیں اوریہ بھی واضح رہے کہ ایک سال سے زیادہ کے لئے وقف زمین کرایہ پردیناجائزنہیں۔(تِلْکَ عَشَرَۃٌ کَامِلَۃٌ)
یہ چندمثالیں لکھدی ہیں،غورکرنے سے اوربھی بہت سی صورتیں ایسی نکل آئیں گی جن میں امانت داری کی خلاف ورزی ہوتی رہتی ہے اوران میں عام لوگ مبتلاہیں۔
ایک بہت بڑی خیانت
ایک بہت بڑی خیانت ٹیلیفون کے محکمہ میں کام کرنے والوں کی طرف سے شروع ہوگئی ہے اوروہ یہ ہے کہ جن لوگوں کے گھروں اوردوکانوں میں ٹیلیفون ہیں،خاص کروہ لوگ جوشہرسے باہریاملک سے باہرٹیلیفون کرناچاہتے ہیں،ان سے آپریٹرکہہ دیتاہے کہ آپ ماہانہ اتنی رقم دیں،پھرجتنی جگہ فون کریں یاجتنی بارکریں،آپ کوآزادی رہے گی اورکلّی اختیار رہے گا،اس میں سراپا خیانت ہے،بہت بڑی خیانت ہے، آپریٹراورٹیلیفون کرنے والے سب خیانت کاارتکاب کرتے ہیں اور محکمہ کی بڑی بڑی رقوم ہضم کرجاتے ہیں،ان کوموت کے بعدکاکوئی خیال نہیں۔
اصل بات یہ ہے کہ عام طورپرآخرت کی فکرہی نہیں رہی،دل کی لگی بری ہوتی ہے،اگرفکرہوجائے جسے واقعی فکرکہتے ہیں اوردوزخ کی آگ کایقین ہوجائے تونیندہی نہ آئے،جب تک کہ حقوق العبادادانہ کردے،فکرتوبعدکی بات ہے،یقین ہی کچاہے،جویقین کہنے کے لائق نہیں،اس لئے حقوق کی ادائیگی اورادائیگی فرائض وواجبات اوراجتنابِ محرمات کی طرف توجہ نہیں۔
لوگ مال ودولت کواورحکومت وسلطنت کوکامیابی سمجھتے ہیں، دنیا کے عہدے حاصل ہوجانے کوکامیابی جانتے ہیں اوربڑے بڑے گناہوں میں ملوّث ہوکریہ چیزیں حاصل کرتے ہیں،جوچیزیں گناہوں سے حاصل ہوں گی ان میں خیرکہاں؟وہ تومزیدگناہوں کا ذریعہ بنیں گی،گناہوں کی گٹھڑی لے کرقیامت میں حاضر ہوناکوئی سمجھداری نہیں ہے،گذشتہ گناہوں سے توبہ کرو،حقوق اللہ اورحقوق العبادکی تلافی کرواورآئندہ گناہوں سے بچو۔
اللہ جلّ شانہ ہم سب کوگناہوں سے محفوظ فرمائے اوراعمالِ صالحہ کی زیادہ سے زیادہ توفیق دے۔(آمین)
انہ علی کل شیء قدیر و بالإجابۃ جدیر و الحمدللہ الملک الوھاب و الصلوۃ و السلام علی من أوتی الحکمۃ و فصل الخطاب و علی آلہ و صحبہ خیر آل و أصحاب۔
٭٭٭
(ماہانہ البلاغ ذوالقعدہ 1436 ھ)