چند بڑے گناہ
نماز نہ پڑھنا
نماز اہم ترین عبادت ہے ، اور ایمان کے بعد تمام فرائض پر مقدم ہے ، اور قیامت میں سب سے پہلے اسی کے بارے میں سوال ہوگا ، یہ اسلام کی علامت ہے ، اور دین کا ستون ہے ، گناہوں کی معافی ، دل کو نورانی بنانے اور اللہ تعالیٰ کا قرب اور رضا حاصل کرنے کا بہترین ذریعہ ہے ، نماز کا مرتبہ دین میں ایسا ہی ہے جیسا کہ سرکا درجہ بدن میں ۔لیکن افسوس ہے کہ نماز جتنی اہم ہے ہمارے زمانہ میں اُتنی ہی اس سے غفلت اور لاپرواہی کا معاملہ کیا جاتا ہے ۔قرآن کریم اور احادیث مبارکہ میں نماز چھوڑنے والوں کی مذمت اور ان پر بہت سخت وعیدیں وارد ہوئی ہیں ، چنانچہ اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے :
فَخَلَفَ مِنْ بَعْدِھِمٌ خَلْفٌ اَضَاعُوْا الصَّلاَۃَ وَاتَّبَعُوْا الشَّھَوَاتِ فَسَوْفَ یَلْقَوْنَ غَیًّا(سورۂ مریم :۵۹)
ترجمہ : پھر ان کے بعد ایسے لوگ ان کی جگہ آئے جنہوں نے نمازوں کو برباد کیا اور نفسانی خواہشات کے پیچھے چلے ، چنانچہ ان کی گمراہی بہت جلد ان کے سامنے آجائے گی ۔
تشریح
نماز کے ضائع کرنے سے مراد جمہورِ مفسرین حضرت عبداللہ بن مسعودؓ، حضرت نخعی ؓ ، حضرت قاسم ؓ ، حضرت مجاہد ؒ ، حضرت ابراہیم ؒ ، حضرت عمر بن عبدالعزیزؒ وغیرہ کے نزدیک نماز کو اُس کے وقت سے مؤخر کرکے پڑھنا ہے ، اور بعض حضرات نے فرمایا کہ نماز کے ارکان وشرائط میں سے کسی میں کوتاہی کرنا (جس میں وقت بھی داخل ہے) اضاعتِ نماز میں شامل ہے اور بعض حضرات نے فرمایا کہ نماز ضائع کرنے سے مراد بلاعذرِ معتبر بے جماعت گھر میں نماز پڑھ لینا ہے ۔(تفسیر معارف القرآن :۶/ ۴۴، بحوالہ تفسیر قرطبی ، بحر محیط)
نماز کی اہمیت اور اسے چھوڑنے یا وقتِ مقررہ سے مؤخر کرکے پڑھنے کے گناہ ہونے سے متعلق ذیل میں چند احادیثِ طیبہ ملاحظہ ہوں :
حدیث نمبر ۱
عَنْ أَبِیْ ھُرَیْرَۃَ ۔ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہُ ۔قَالَ : قَالَ رَسُوْلُ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ -: اِنَّ أَوَّلَ مَا یُحَاسَبُ بِہٖ الْعَبْدُ یَوْمَ الْقِیَامَۃِ مِنْ عَمَلِہٖ صَلَا تُہُ، فَاِنْ صَلُحَتْ ، فَقَدْ أَفْلَحَ وَأَنْجَحَ ، وَاِنْ فَسَدَتْ ، فَقَدْ خَابَ وَخَسِرَ ، فَاِنِ انْتَقَصَ مِنْ فَرِیْضَتِہٖ شَییئٌ، قَالَ الرَّبُّ ۔عَزَّ وَجَلَّ – :اُنْظُرُوْا ھَلْ لِعَبْدِیْ مِنْ تَطَوُّعٍ ، فَیُکْمَلُ مِنْھَا مَا انْتَقَصَ مِنَ الْفَرِیْضَۃِ ؟ ثُمَّ تَکُوْنُ سَائِرُ أَعْمَالِہٖ عَلٰی ھٰذَا ۔ رواہ الترمذی ، وقال : حدیث حسن (ریاض الصالحین۔۲/ ۲۳)
ترجمہ : حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد ہے : قیامت کے دن آدمی کے اعمال میں سب سے پہلے فرض نماز کا حساب کیا جائے گا، اگر نماز اچھی نکل آئی تو وہ شخص کامیاب اور بامراد ہوگا ، اور اگر نماز بیکار ثابت ہوئی تو وہ نامراد اور خسارہ میں ہوگا،اور اگر فرض نماز میں کچھ کمی پائی گئی تو اللہ تعالیٰ ارشاد فرمائیں گے : دیکھو اس بندہ کے پاس کچھ نفلیں بھی ہیں جن سے فرضوں کو پورا کردیا جائے ؟ (اگر نکل آئیں تو ان سے فرضوں کی تکمیل کردی جائے گی) ا س کے بعد پھر اسی طرح باقی اعمال کا حساب ہوگا۔
تشریح :اس حدیث شریف سے معلوم ہوا کہ آدمی کو نفلوں کا ذخیرہ بھی اپنے پاس رکھنا چاہئے تاکہ اگر فرضوں میں کچھ کوتاہی نکلے تو وہ نفلوں سے پوری کردی جائے ۔
حدیث نمبر ۲ : عَنْ جَابِرٍقَالَ: قَالَ رَسُوْلُ اللّٰہِ ۔صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ ۔ بَیْنَ الْعَبْدِ وَبَیْنَ الْکُفْرِ تَرْکُ الصَّلاَۃِ (سنن أبی داود۔ ۴/ ۳۵۳)
ترجمہ : حضرت جابر رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا : بندہ کو اور کفر کو ملانے والی چیز نماز چھوڑنا ہے ۔
تشریح
کتنی سخت وعید ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نماز کے چھوڑنے پر کفر کا حکم لگارہے ہیں ، اگرچہ علماء کرام نے اس کو “انکارکرنے ” کے ساتھ مقید کیا ہے ، یعنی جو شخص نماز نہ پڑھنے کے ساتھ ساتھ اس کی فرضیت کا بھی انکار کرے وہ کافر ہے ، لیکن حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے ارشاد کی فکر اتنی بڑی چیز ہے کہ جس کے دل میں ذرا بھی حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی وقعت اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے ارشاد کی اہمیت ہوگی اس کے لئے یہ ارشادات نہایت سخت ہیں ، اس کے علاوہ بعض صحابہ کرام رضی اللہ عنہم اور بعض ائمہ رحمہم اللہ کا تو مذہب یہی ہے کہ بلاعذر جان بوجھ کر نماز چھوڑنے والا کافر ہے ۔اس لئے ہر مسلمان کو اس کبیرہ گناہ سے بچنے کی فکر کرنی چاہئے۔
حدیث نمبر ۳
عَنْ عَبْدِاللّٰہِ بْنِ عَمْرٍوعَنْ رَسُوْلِ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ أَنَّہُ ذَکَرَ الصَّلَاۃَ یَوْمًا فَقَالَ : (مَنْ حَافَظَ عَلَِیْھَا کَانَتْ لَہُ نُوْرًا وَبُرْھَانًا وَنَجَاۃً یَوْمَ الْقِیَامَۃِ وَمَنْ لَمْ یُحَافِظْ عَلَیْھَا لَمْ یَکُنْ لَہُ بُرْھَانٌ وَلَا نُوْرٌ وَلَا نِجَاۃٌ وَکَانَ یَوْمَ الْقِیَامَۃِ مَعَ قَارُوْنَ وَھَامَانَ وَفِرْعَوْنَ وَأُبیِّ بْنِ خَلَفٍ) (صحیح ابن حبان ۔ ۴/ ۳۲۹)
ترجمہ : حضرت عبداللہ بن عمرو رضی اللہ عنھما نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے نقل فرماتے ہیں کہ ایک دن حضور اقدس صلی اللہ علیہ وسلم نے نماز کا ذکر فرمایا اور یہ ارشاد فرمایا : جو شخص نماز کا اہتمام کرے تو نماز اس کے لئے قیامت کے دن نور ہوگی اور حساب پیش ہونے کے وقت حجت ہوگی اور نجات کا سبب ہوگی ، اور جوشخص نماز کا اہتمام نہ کرے اُس کے پاس نہ کوئی حجت ہوگی نہ اُس کے لئے قیامت کے دن نور ہوگا اور نہ نجات کا کوئی ذریعہ ، اور قیامت کے دن اُس کا حشر قارون ، ہامان ، فرعون اور ابی بن خلف (جیسے بڑے بڑے کافروں ) کے ساتھ ہوگا۔
تشریح :علماء نے لکھا ہے کہ ان کے ساتھ حشر ہونے کی وجہ یہ ہے کہ اکثر اُنہی وجوہ سے نماز میں سستی ہوتی ہے جو ان کافروں میں پائی جاتی تھیں ،یعنی مال ، حکومت وسلطنت ، وزارت اور تجارت ۔ لہٰذا اگر نماز میںسُستی مال ودولت میں مشغولی کی وجہ سے ہوتو قارون کے ساتھ حشر ہوگا، اور اگر نماز چھوڑنے کی وجہ حکومت وسلطنت ہے تو فرعون کے ساتھ حشر ہوگا،اور اگر اس کی وجہ وزارت ہے تو ہامان کے ساتھ ، اور تجارت میں مشغولی ہے تو ابی بن خلف کے ساتھ حشر ہوگا جو مکہ میں کافروں کا تاجرتھا۔
حدیث نمبر ۴
اِذَا صَلَّی الْعَبْدُ فِیْ أَوَّلِ الْوَقْتِ صَعِدَتْ اِلیَ السَّمَائِ حَتّٰی تَنْتَھِیَ اِلَی الْعَرْشِ فَتَسْتَغْفِرُ لِصَاحِبِھَا یَوْمَ الْقِیَامَۃِ ، تَقُوْلُ : حَفِظَکَ اللّٰہُ کَمَا حَفِظْتَنِیْ ، وَاِذَا صَلَّی فِیْ غَیْرِ وَقْتِھَا ، صَعِدَتْ لَانُوْرَ لَھَا فَتَنْتَھِیْ اِلیَ السَّمَائِ فَتُلَفُّ کَمَا تُلَفُّ الْخِرْقَۃُ الْمَبْلُوْلَۃُ فَیُضْرِبُ بِھَا وَجْہُ صَاحِبِھَا، وَتَقُوْلُ : ضَیَّعَکَ اللّٰہُ کَمَا ضَیَّعْتَنِیْ ۔ “اِبْنُ النَّجَارِ عَنِ ابْنِ مَسْعُوْدٍ”۔(کنز العمال۔۷/ ۳۶۱)
ترجمہ :جب بندہ اول وقت میں نماز پڑھتا ہے تو وہ نماز آسمان کی طرف چڑھتی ہے یہاں تک کہ عرش تک پہنچ جاتی ہے ، پھر ایسی نماز قیامت کے دن اللہ تعالیٰ سے اپنے پڑھنے والے کے لئے بخشش مانگے گی ، اور وہ نماز نمازی کو یوں دعادیتی ہوئی جاتی ہے : اللہ تعالیٰ تیری بھی ایسی حفاظت کرے جیسی تونے میری حفاظت کی ۔اور اگر بندہ نماز کو غیر وقت میں پڑھتا ہے تو وہ اس حال میں اوپر جاتی ہے کہ وہ تاریک ہوتی ہے ، آسمان تک جاتی ہے تو وہاں سے پرانے گیلے کپڑے کی طرح لپیٹ کر نمازی کے منہ پر ماردی جاتی ہے اور نمازی کو یوں بددعادیتی ہے : اللہ تجھے بھی یونہی ضائع کرے جیسے تونے مجھے کیا ہے ۔
تشریح : اس حدیث میں بروقت نماز اداکرنے کی کتنی بڑی فضیلت بیان کی گئی ہے کہ نماز خود نماز ی کو دعا دیتی ہے اور قیامت کے دن نمازی کے لئے مغفرت طلب کرے گی ۔لیکن نماز کا اہتمام نہ کرنے والے اوروقت گزرنے کے بعد پڑھنے والوں کے لئے بڑی سخت وعید ہے کہ ایسی نماز فائدہ مند نہیں ہوتی ، بلکہ اُلٹا نماز ی کے لئے بددعا بھی کرتی ہے ۔ اسی طرح جو لوگ نماز توپڑھتے ہیں لیکن خشوع وخضوع سے نہیں پڑھتے بلکہ جلدی جلدی پڑھ لیتے ہیں ان کی نمازوں پر بھی یہی وعید ہے ۔
حدیث نمبر ۵
عَنْ نَوْفَلَ بْنِ مُعَاوِیَۃَ ، أَنَّ النَّبِیَّ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ قَالَ : “مَنْ فَاتَتْہُ الصَّلَاۃُ فَکَأَنَّمَا وُتِرَ أَھْلُہُ وَماَلُہُ”(مسند أحمد ۔ ۳۹/ ۴۹)
ترجمہ :حضرت نوفل بن معاویہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشادفرمایا:
جس شخص کی نماز فوت ہوگئی وہ ایسا ہے گویا اس کے گھر کے لوگ اور مال ودولت سب چھین لیا گیا ہو۔
یعنی اگر آدمی سے اس کا مال اور بال بچے سب چھین لئے جائیں اور وہ اکیلا کھڑا رہ جائے تو جس قدر رنج وصدمہ اس حالت میں اس کو ہوگا ایسا ہی صدمہ نماز چھوٹنے میں ہونا چاہیئے ، کیونکہ نماز کا ضائع کرنا بھی انجام کے اعتبار سے ایسا ہی ہے ۔اور آدمی جس قدر اپنے بال بچوں اور مال ودولت کے ضائع ہونے سے ڈرتا ہے اسی طرح بلکہ اس سے زیادہ نماز کے ضائع ہونے سے ڈرنا چاہیئے۔
لہٰذا نماز بہت اہتمام سے اور توجہ سے باجماعت اداکرنی چاہئے، بغیر معتبر عذر کے جماعت ہر گز نہ چھوڑنی چاہیئے اور پوری نماز آرام واطمینان سے اداکرنی چاہیئے ، جلدی جلدی نہ پڑھنی چاہئے۔اور جس طرح اپنے مقام پر باقاعدہ نماز اداکرنی چاہئے اسی طرح سفر میں بھی نماز پڑھنی چاہئے ۔ بعض خواتین وحضرات سمجھتے ہیں کہ سفر میں نماز معاف ہے اس لئے وہ نماز نہیں پڑھتے ، یہ ناجائز اور بڑا گناہ ہے ، کیونکہ سفر کی وجہ سے فرض نمازوں میں قصر ہوتا ہے ، لیکن نماز معاف نہیں ہوتی ۔
اللہ پاک سب مسلمانوں کو پابندی سے نماز پڑھنے کی توفیق عطافرمائیں ۔ آمین۔
٭٭٭