حضرت مولانا مفتی عبدالرؤف سکھروی صاحب مدظلہم
رجوع الی اللہ اورتوبہ کی اہمیت اورفضیلت
(دوسری قسط)
حقوق اللہ اورحقوق العباد کی تلافی
جو چیزیں حقوق اللہ یا حقوق العباد میںسے اپنے ذمہ لازم ہوںاُن کی تلافی کرنابھی توبہ کاایک اہم جزو ہے،بہت سے لوگ توبہ کرلیتے ہیں،لیکن اس جزوکی طرف متوجہ نہیں ہوتے ،حالانکہ اس کے بغیرتوبہ، حقیقی توبہ نہیںہوتی ،حقوق ادانہ کرنااورتوبہ زبانی کرکے مطمئن ہوجانااپنے نفس پرظلم ہے اورآخرت کے حساب سے نڈرہونا ہے،حقوق کی تلافی کی کچھ تفصیل اورطریق کارہم ذیل میں لکھتے ہیں:
حقوق اللہ کی ادائیگی
حقوق اللہ کی ادائیگی کامطلب یہ ہے کہ بالغ ہونے کے بعد سے جن فرائض کو ترک کیاہو اورجن واجبات کوچھوڑاہو،ان کی ادائیگی کی جائے،نماز،روزہ،زکوٰۃ،حج وغیرہ سب کی تلافی کرنالازم ہے۔
قضانمازیں
زندگی میں جونمازیں قصدًا یاسہوًا چھوٹ گئی ہوںیامرض اور سفر وغیرہ میں رہ گئی ہوں(حالانکہ نمازکسی بھی حال میں چھوڑناسخت گناہ ہے)ان سب کواہتمام سے اداکرنالازم ہے اوراُن کی ادائیگی کاطریقہ یہ ہے کہ یوں حساب لگائے کہ جب سے میں بالغ ہواہوں میری کتنی نمازیں چھوٹی ہوںگی؟
ان نمازوں کااس قدراندازہ لگائے کہ دل گواہی دیدے کہ اس سے زیادہ نہیںہوںگی،پھران سب نمازوں کی قضاپڑھے،عوام میں یہ جو مشہورہے کہ حرم شریف،جمعۃ الوداع یاکسی اوردن یارات میں قضائِ عمری کے نام سے دورکعت پڑھنے سے سب چھوٹی ہوئی نمازیںادا ہوجاتی ہیں،بالکل غلط ہے۔
قضا نمازوں کاوقت
قضانمازوں کے لئے کوئی وقت مقررنہیں ہے،بس! یہ دیکھ لے کہ سورج نکلتاچھپتانہ ہواورزوال کاوقت نہ ہو،سورج نکل کے جب ایک نیزہ بلند ہوجائے،جس کااندازہ سورج نکلنے سے کم ازکم دس منٹ ہے، توقضانمازیںاورنوافل سب پڑھناجائزہوجاتاہے اورنمازِ فجر کے بعداورنمازِعصرکے بعد بھی قضاپڑھنا درست ہے، البتہ جب سورج غروب ہونے سے پہلے جب آفتاب میں زردی آجائے اُ س وقت قضا نہ پڑھے۔
ہرایک دن کی پانچ فرض نمازیں اورتین رکعت نمازِوتریعنی کل بیس رکعت بطورِقضاپڑھ لے اوریہ بھی معلوم ہوناچاہئے کہ لمبے سفرمیں (جوکم ازکم اَڑتالیس میل کاہو)جوچاررکعت والی نمازیں قضا ہوئیں ہوں،اُن کی قضادوہی رکعت ہے،جیساکہ سفرمیںدوہی رکعت واجب تھیں،اگرچہ گھرمیں اداکررہاہو۔
جتنی نمازیں قضاہوںان کواداکریں
اوریہ بھی سمجھ لیں کہ ضروری نہیںکہ جونمازیںقضاہوئی ہوں، تعداد میں سب برابرہوں،کیونکہ بعض لو گ نمازیں پڑھتے بھی رہتے ہیں،چھوڑتے بھی رہتے ہیں،بہت سے لوگ سفرمیںنمازنہیں پڑھتے، عام حالات میں پڑھ لیتے ہیںاوربہت سے لوگ مرض میں نمازچھوڑ بیٹھتے ہیں،کچھ لوگوں کی فجرکی نماززیادہ قضاہوجاتی ہے،کچھ لوگ عصرکی نمازیں زیادہ قضاکردیتے ہیں،پس جونمازجس قدرقضاہوئی ہو،اس کا زیادہ سے زیادہ اندازہ لگاکروہ نمازپڑھ لی جائے۔
عوام میں جویہ مشہورہے کہ ظہرکی قضانمازظہرہی میں پڑھی جائے،یہ درست نہیں ہے،جس وقت کی جس وقت چاہیں، اداکرسکتے ہیںاورایک دن میں کئی کئی دن کی نمازیں بھی اداہوسکتی ہیں، اگر قضا نمازیں پانچ سے زیادہ ہوجائیں تو ترتیب واجب نہیں رہتی، جونسی نماز پہلے پڑھ لی جائے درست ہوجائے گی،مثلاً اگرعصرکی نماز پہلے پڑھ لی اور ظہرکی بعد میں پڑھی تو اس طرح بھی ادائیگی ہوجائے گی۔
بجائے نفلوں کے قضانمازیں پڑھیں
بہت سے لوگ نفلوں کااہتمام کرتے ہیںاوربرس ہا برس کی قضا نمازیںاُن کے ذمہ ہیں،اُن کوادانہیں کرتے،یہ بہت بڑی بھول ہے اور غلطی ہے،نفلوں اورغیرمؤکدہ سنتوں کی جگہ بھی قضا نمازیں ہی پڑھ لیاکریںاوران کے علاوہ بھی قضانمازوں کے لئے وقت نکالیں،اگر پوری قضانمازوں کواداکئے بغیرموت آگئی تومؤاخذاہ کاسخت خطرہ ہے۔
قضانمازوں کی نیّت
جب نمازوں کی تعداد کابہت احتیاط کے ساتھ اندازہ لگالیاتو چونکہ ہرنمازکثیرتعدادمیںہے اوردن تاریخ یاد نہیں،اس لئے حضرات فقہائے کرام نے آسانی کے لئے یہ طریقہ بتایاہے کہ جب بھی کوئی نماز پڑھنے لگے تویوں نیّت کرلیاکرے کہ میرے ذمّہ (مثلاً)ظہرکی جوسب سے پہلی نمازفرض ہے اس کواللہ تعالیٰ کے لئے اداکرتاہوں، جب بھی نمازِظہراداکرنے لگے اسی طرح نیت کرلیاکرے اوردیگرنمازوںمیں بھی اسی طرح نیت کرے،ایساکرنے سے ترتیب قائم رہے گی،کیونکہ اگرکسی کے ذمہ ظہرکی ایک ہزار نمازیں قضاتھیں توہزارویں نماز(ابتداکی جانب) سب سے پہلی نماز تھی اوراس کوپڑھنے کے بعداُس کے بعد والی سب سے پہلی ہوگی اورجب تیسری بھی پڑھ لی جائے گی تو اس کے بعد والی سب سے پہلی ہوگی،اس کوخوب سمجھ لو۔
زکوٰ ۃ کی ادائیگی
اسی طرح زکوٰۃ کے بارے میں خوب غورکریںکہ مجھ پر زکوٰۃ فرض ہے یانہیں؟اوراگرفرض ہوئی ہے توہرسال پوری اداہوئی ہے یا نہیں؟جتنے سال کی زکوٰۃبالکل ہی نہ دی ہویاکچھ دی ہواورکچھ نہ دی ہو اُن سب کااس طرح اندازہ لگائے کہ دل گواہی دیدے کہ اس سے زیادہ مالِ زکوٰۃ کی ادائیگی مجھ پر واجب نہیںہے،پھر اسی قدرمالِ زکوٰۃ مستحقینِ زکوٰۃ کودیدے،خواہ ایک ہی دن میں دیدے ،خواہ تھوڑا تھوڑا کرکے دیدے، اگر قدرت میں ہو تو جلد سے جلد سب کی ادائیگی کردے، ورنہ جس قدرممکن ہواداکرتارہے،اورپختہ نیت رکھے کہ پوری ادائیگی ضرورکردوں گا،اورجب بھی مال میسرآجائے، ادائیگی میں کوتاہی نہ کرے اوردیرنہ لگائے۔
صدقۂ فطربھی واجب ہے اورجو کوئی نذرمان لے، وہ بھی واجب ہوجاتی ہے،ان میں سیجس کی بھی ادائیگی نہ کی ہواس کی ادائیگی کرے،قربانی بھی واجب ہے،اگرنہ کی ہوتو ایک قربانی کے بدلہ ایک درمیانی درجہ کے بکرے یابکری کی قیمت صدقہ کرے۔
واضح رہے کہ گناہ کی نذرمانناگناہ ہے اوراس کاپوراکرنابھی گناہ ہے،اگرایساکوئی واقعہ ہوتوعلماء سے اُس کاحکم معلوم کریں۔
روزوں کی قضا
اسی طرح روزوں کاحساب کرے کہ بالغ ہونے کے بعد سے فرض روزے جوچھوڑے ہیںیاسفریامرض کی وجہ سے چھوٹے ہیں،ان سب روزوںکاحساب کرکے سب کی قضارکھے،عورتوں کے ساتھ ہر مہینے والی مجبوری لگی ہوئی ہے،اس مجبوری کے زمانہ کوعام طورپر’’ماہواری کے دن‘‘ کہتے ہیں،ان دنوں میں شرعاً نمازپڑھنا،روزہ رکھناجائزنہیں ہے،شریعت نے ان دنوں کی نمازیں بالکل ہی معاف کردی ہیں،لیکن ان دنوں میںفرض روزے جوچھوڑدئیے جاتے ہیں،بعدمیںاُن کی قضا رکھنافرض ہے،لیکن بہت سی عورتیں اس میں کمزوردکھاتی ہیں اوربعد میں مذکورہ روزوں کی قضاء نہیںرکھتیں جس کی وجہ سے بہت سی عورتوں پرکئی کئی سال کے روزوں کی قضا لازم ہوجاتی ہے،خوب صحیح اندازہ کرکے جس سے یقین ہوجائے کہ زیادہ سے زیادہ اتنے روزے ہوںگے،ان سب کی قضارکھ لیں،بالغ ہونے کے بعد سے اب تک جتنے بھی روزے فرض خواہ کسی بھی وجہ سے رہ گئے ہوں ، سب کی قضارکھے،مردہویاعورت سب کواس کی ادائیگی لازم ہے۔
حجِ بیت اللہ کی ادائیگی
حج بھی بہت سے مردوں اورعورتوں پرفرض ہوجاتاہے،لیکن حج نہیںکرتے،جن پرحج فرض ہویاپہلے کبھی ہوچکاتھا اورمال کودوسرے کاموں میں لگادیا وہ حج کرنے کی فکرکریں،جس طرح سے ممکن ہواس فریضے کا بوجھ اپنے ذمہ سے ساقط کردیں۔
اگرکسی پرحج فرض ہوااوراس نے حج نہیں کیااوراتنی زیادہ عمر ہوگئی کہ سخت مرض یابہت زیادہ بڑھاپے کی وجہ سے حج کے سفرسے عاجز ہو اورموت تک سفرکے قابل ہونے کی امیدنہ ہوتوایساشخص کسی کوبھیج کراپنی طرف سے حجِ بدل کرادے۔
اگرزندگی میں نہ کراسکے تووارثوں کووصیت کردے کہ اس کے مال سے حج کرائیں،لیکن اصولِ شریعت کے مطابق وصیّت صرف ۳؍۱ مال میں جاری ہوسکتی ہے،ہاں اگربالغ ورثاء اپنے حصہ میں سے بخوشی مزید دیناگوارا کریں تو ان کواختیار ہے۔
جاری ہے …..
٭٭٭٭٭٭٭٭٭
(ماہانہ البلاغ شعبان المعظم 1436ھ)