مواغظِ سکھروی (جلد دوم)

Scan-200602-0077

مواغظِ سکھروی (جلد دوم)

طبع جدید : طبع جدید : ۔۔۔۔
ناشر : ناشر : مکتبۃ الاسلام کراچی
کل صفحات : کل صفحات : 384
ڈاؤن لوڈ سائز : سائز : 40.9 MB

 

 

بسم الله الرّ حمٰن الرّحيم

الحمد لله رب العالمين والعاقبة للمتقين والصلاة والسلام على رسولہ الکریم محمد و على آله و أصحابه أجمعين الیٰ یومِ الدّین

أما بعد!

احقر کے والد ماجد حضرت مولانا مفتی عبدالحکیم صاحب رحمتہ اللہ علیہ کے کمالات اور خوبیوں میں سے ایک یہ ہے کہ آپ نے دارلعلوم دیو بند سے فراعت کے ساتھ ہی شہر ریواڑی،ضلع گوڑگانو(ہریانہ۔انڈیا)میں درسِ قرآن و حدیث اور وعظ و نصیحت کا سلسلہ شروع فرمایا،آپ نے سب سے پہلا وعظ ریواڑی کی جامع مسجد گرداوالی میں کہا، جس میں سجدۃِ سہو کے مسائل بیان فرمائے، اس کی خوشی میں احقر کے دادا حضرت مولانا عبدالعزیز صاحب رحمتہ اللہ علیہ نے احباب کی دعوت کی جس میں پلاؤپکوا کر کھلایا گیا۔

پھر با قاعدہ جامع مسجد گرداوالی میں آپ خطیب مقرر ہوئے، اور جمعہ کو وعظ فرماتے،پھر جامع مسجد بزّازہ میں تقرر ہوا، پھر اپنے محلّہ کی حمراوالی مسجد میں جمعہ کو وعظ کے لئے جاناہوا۔جمعہ کو وعظ کہتےرہے، ریواڑی شہر میں اس وقت ۵۲ یا ۵۶ مسجد تھیں، ہر مسجد میں وعظ کے لئے جانا ہوا۔جمعہ کی تقریر میں قرآن کریم کا تر جمعہ اور تفسیر بیان کرنی شروع کی، آٹھ دس پارے انڈیا میں ہو گئے تھے ،پھر پاکستان بن گیا،پاکستان آکر پہلے حیدرآباد میں پھر سکھر میں فجر کی نماز کے بعد نورانی مسجد میں قرآنِ کریم کا درس شروع کیا،چنانچہ تین چار مرتبہ قرآن کریم کا تر جمہ و تفسیر پورا ہوا۔ ایک مر تبہ علامہ حافظ منذری رحمۃاللہ علیہ کی حدیث کی مشہوری کتاب’’التر غیب و التر ھیب‘‘ کا درس دیا اور ختم کی، نیز نورانی مسجد کے امام و خطیب بھی تھے، اس لئے جمعہ کی نماز سے پہلے بھی وعظ فرماتے تھے۔

شرع میں آپ سکھرکی مختلف مساجد میں جا کر بھی وعظ فرمایا کرتے تھے، سکھرکی شاید ہی کوئی معروف مسجد ایسی ہو جہاں آپ نے وعظ نہ کہا ہو،آخر میں نورانی مسجد کو قرآن و حدیث کے درس،وعظ و نصیحت اور اصلاح و تربیت کے لئے خاص کر لیاتھا ، شاذ و نادر کسی دوسری مسجد میں تشریف لے جاتے ، جس کی بناء پر شہر میں نورانی مسجدکو ایک خاص مرکزیت حاصل ہو گئی تھی، اور کثرت سے لوگ آ پ سے ملنے بیان سننے اور اصلاحِ نفس کے لئے یہیں حاضر ہوتے تھے ، آپ کا درسِ قرآن و حدیث اور وعظ بہت نافع اور مفید ہوتا تھا ، آپ کا وعظ ضرورت کے مطابق اور موقعہ کے مطابق ہوتا تھا، جس کی وجہ سے آپ کا بیان اکثر مختلف ہوتا تھا، جس کو دور ، دور سے لوگ سننے آتے، شہر کے اکثر صلحاء اور اولیا ء اللہ اس میں شرکت کرتے اور آپ کی اقتدا میں نماز جمعہ ادا فرماتے، مسجد میں بڑی رونق اور نورانیت محسوس ہوتی تھی۔

ہر پیر کو ظہر کی نماز کے بعد گھر پر خواتین کی اصلاح کے لئے بیان ہوتاتھا جس میں خواتین کثرت سے شریک ہوتیں اور فیض یاب ہوتیں ، جمعہ کے دن اشراق کے بعد گھر پر آ کے مریدین اور خاص متعلقین کے لئے اصلاحی اور تربیتی مجلس ہوتی تھی جس میں آپ کے متوسّلین دور ،دور سے شرکت کے لئے آ تے اور خوب فائدہ اُٹھا تے ، اس میں اکثر باطن کے فضائل و رذائل کا بیان ہوتا تھا۔

سال میں چند بار دوسرے شہروں میں بھی وعظ و نصیحت کے لئے جانا ہوتاتھا، اکثر ملتان جایا کرتے تھے، وہاں رشید آباد کالونی میں حاجی محمد شفیع صاحب ؒ کے یہاں قیام ہوتا، برادری کے اکثر حضرات جو آپ سے بیعت اور اصلاحی تعلق رکھتے تھے،حاضر ہوتے ، حاجی محمد شفیع صاحب ؒ کی بیٹھک میں اکثر بیان ہوتا اور رشید آباد کالونی کی جامع مسجد میں بھی بیان ہوتا جس میں برادری اور غیر برادری کے لوگ کثرت سے شریک ہوتے تھے اور پوری کالونی میں رونق ہوجاتی اور لوگوں کی اصلاح ہوتی تھی۔

سکھر ، ملتان یا حیدر آباد میں برادری یا غیر برادر ی کے بعض نکاحوں میں حضرت والد صاحب ؒ شریک ہوتے اور نکاح سے پہلے حسبِ موقعہ نکاح کے بارے میں یابرادری کے بعض رسومات کے بارے میں بیان فرمانے کا معمول تھا، اور موقعہ و محل کے لحاظ سے جو بات کہی جاتی ہے وہ اثر رکھتی ہے، اس لئے ایسے بیان کا بڑا فائدہ ہوتا اور نقد اصلاح ہوتی، غرضیکہ جہاں بھی رہے، دین کی اشاعت فرماتے رہے، وعظ و نصیحت کرتے رہے اور قرآن وحدیث کا درس دیتے رہے، آپ کا اندازِ بیان بہت نرم اور آسان اور ایسا عام فہم ہوتا کہ عام سے عام اور جاہل سے جاہل شخص بھی بآسانی سمجھ لیتا تھا، آپ کی ہر بات دل سے نکلتی تھی اور دلوں پر اثر کرتی تھی، دورانِ بیان نہایت سکون و اطمینان محسوس ہوتا تھا ، بعض کو نیند بھی آنے لگتی تھی، ایسا لگتا تھا کہ اللہ تعالیٰ کی رحمت اُتر رہی ہے او ر سکینہ نازل ہو رہا ہے، بیان کے ختم پر بڑی والہانہ دعا ہوتی اور ہر شخص کو دعا کی قبولیت محسوس ہونے لگتی ۔

آپ کے بیان کی وجہ سے بیشمار لوگوں کی اصلاح ہوئی، ہزاروں بدعتی بدعات سے تائب ہوئے اور بدعات کا خاتمہ ہوا، توحید و سنت زندہ ہوئی، عقائد درست ہوئے،اخلاق سنور گئے، کتنے ہی بد معاش، بے دین اور آوارہ لوگ دیندار اور اللہ والے بن گئے، لوگوں میں حلال و حرام کی تمیز پیدا ہوئی، اتّباعِ سنت کا جذبہ پیدا ہوا اور لوگ سنّت کی راہ پر چل پڑے اور ایک بڑی مخلوق کی کایا پلٹ گئی، شہر سکھر میں اہل ِ حق کا غلبہ ہوگیا، اہلِ باطل مغلوب ہوگئے، اللہ تعالیٰ حضرت والد صاحب ؒ کی ان مساعی کو قبول فرمائے اور بہترین بدلہ عطافرمائے، آمین۔

اخیر عمر تک یہ سلسلہ جاری رہا، جب ضعف بڑھ گیا تو فجر کے بعد درس دینا ترک کردیا، اپنے اکابر کی کتابیں پڑھواکر سناکرتے، پھر دل کی تکلیف ہونے پر فجر کے بعدکے یہ سلسلہ بھی بند کردیا، لبِ مہران چہل قدمی کے لئے تشریف لیجانے لگے، اور کتاب پڑھوانے کا معمول عصر کے بعد مقرر کرلیا، اس وقت حضرت منیر احمد صاحب جو حضرت والد صاحب ؒ کے خلیفہ مجاز ہیں، حضرت تھانوی ؒ کے ملفوظات پڑھ کر سناتے اورآپ بقدرِ ضرورت ان کی تشریح فرماتے، اس میں آپ کے متعلقین بھی شریک ہوتے، اس طرح اخیر عمر تک یہ معمول جاری رہا۔

آپ کے دروس اور مواعظ کو محفوظ کرنے اور ٹیپ کرنے کا باقاعدہ انتظام نہ تھا، البتہ آپ کے بعض احباب آپ کے بعض درس اور وعظ بذریعہ ٹیپ محفوظ کرلیتے تھے جن میں جناب حکیم محمد عارفین صاحب مرحوم، بھائی اظہار احمد صاحب اور بھائی محمد نعیم صاحب قبلِ قدر ہیں، ان کے پاس مجموعی طور پر پچاس ساٹھ کیسٹیں جمع تھیں جو حضرت والد صاحب ؒ کے وصال کے بعد اِن حضرات نے احقر کو دیدیں، جو الحمد للہ تعالیٰ میرے احباب میں سے بھائی معین احمد سلمہ کے پاس محفوظ ہیں، لیکن ان کو نقل کرکے چھپوانے کا ابھی کوئی انتظام نہ تھا، ہاں خواہش تھی کہ کو ئی صورت نکلے۔ اللہ تعالیٰ حافظ عبید اللہ سلمہ کو جزاءِ خیر عطافرمائے کہ اللہ تعالیٰ نے ان کے دل میں ڈالا کہ حضرت والد صاحب ؒ کے دروس و مواعظ نقل کرواکر مواعظِ سکھروی کے نام سے ان کو شائع کریں، جس کی انہوں نے ناچیز سے اجازت لی ، بندہ نے بخوشی اجازت دیدی، چناچنہ انہوں نے عزیزم محمد عدنان مرزا سلمہ کو اس پر تیار کیا ، ان کے دل میں پہلے سے یہ تمنّا پائی جاتی تھی ، بلکہ ایک مرتبہ انہوں نے حضرت والد صاحب ؒ کے مزار پر اس کی توفیق ملنے کی اللہ تعالیٰ سے دعا بھی کی تھی جو مقبول ہوئی اور موصوف نے بخوشی تقریباً چالیس درس ومواعظ کیسٹوں سے کاغذ پر نقل کردیئے، پھر ضرورت اس کی تھی کہ ان کو باقاعدہ مرتب کیا جائے، کتابت کو اچھی طرح جانچا جائے، آیات واحادیث کو صحیح نقل کیا جائے، حافظ عبید اللہ سلمہ نے مولانا مفتی عبد الرّحمٰن میمن سلمہ کو تیار کیا ، موصوف نے یہ خدمت احسن طریقہ سے پوری کی، آخر میں وہ ہر درس اور وعظ احقر کو دکھاتے رہے ، اس لئے یہ سب احقر کی نظر سے گزرے ہوئے ہیں، اور مرتب ہونے کےبعد ان کی یہ پہلی جلد آپ کے ہاتھوں میں ہے، اس کے بعد مزید چند جلدیں انشاء اللہ تعالیٰ شائع ہوں گی۔

حضرت والد صاحب ؒ کے مواعظ کی اشاعت میرے لئے بے حد خوشی اور مسرّت کی بات ہے، دل وجان سے اللہ تعالیٰ کا شکر ادا کرتا ہوں کہ حق تعالیٰ شانہ نے غیب سے ان کی اشاعت کا انتظام فرمایا اور بعد والوں کے لئے بھی ان سے فائدہ اُٹھانے کا موقعہ عطافرمایا، اللہ پاک ان کوقبول فرمائے اور جن جن احباب نے بالخصوص حافظ عبید اللہ سلّمہ نے جو کاوش کی اللہ تعالیٰ اس کا دنیا و آخرت میں بہترین بدلہ عطا فرمائے، آمین۔

آخر میں واضح رہے کہ یہ حضرت والد صاحب ؒ کی باقاعدہ کوئی تصنیف نہیں ہے بلکہ درس و وعظ اور تقاریر کی تلخیص کا مجموعہ ہے، جو کیسٹوں کی مدد سے تیار کیا گیا ہے، اس لئے ان کا انداز تحریری نہیں بلکہ خطابی ہے،اگر کسی مسلمان کو ان باتوں سے فائدہ پہنچے تو یہ محض اللہ تعالیٰ کا کرم ہے جس پر اللہ تعالیٰ کا شکر ادا کرنا چاہئے، اور اگر کوئی بات غیر محتاط یا غیر مفید معلوم ہوتو اس میں ہماری کوتاہی اور غلطی ہے، اطلاع دیکر ممنون فرمائیں، بہر حال اپنی اصلاح کی غرض سے ان کو پڑھنا چاہئے اور عمل کرناچاہئے۔

اللہ تعالیٰ اپنے فضل و کرم سے ان دروس و مواعظ کو ہم سب اور جملہ قارئین کے لئے اصلاح کاذریعہ بنائیں اور حضرت والد صاحب ؒ کے لئے ذخیرۂ آخرت بنائیں۔

آمین بحرمۃ سید المرسلین صلی اللہ علیہ وسلم دائما ابدا

بندہ عبد الرّؤف سکھر وی

قبیل العصر، بروز اتوار

بتاریخ ۱۷ شعبان ۱۴۳۳ھ مطابق ۸ جولائی ۲۰۱۲ء