چند بڑے گناہ – بلاعذر فرض روزہ نہ رکھنے کا گناہ

چند بڑے گناہ
بلاعذر فرض روزہ نہ رکھنے کا گناہ

روزہ ارکان اسلام میں سے ایک اہم رکن ہے ، اور یہ ایسی بدنی عبادت ہے جو پچھلی امتوں پر بھی فرض تھی ، اس عبادت کی خصوصیت یہ ہے کہ اس کی برکت سے نفسانی خواہشات کا زور ٹوٹتا ہے ، اللہ تعالیٰ نے ہر عاقل وبالغ مسلمان مرد وعورت پر رمضان المبارک کے روزے فرض فرمائے ہیں ، اور یہ وہ بابرکت فریضہ ہے جس کو اللہ تعالیٰ نے اپنی طرف منسوب فرمایا ہے اور قیامت کے دن حق تعالیٰ اس کا بدلہ اور اجر وثواب بغیر کسی واسطہ کے بذاتِ خود روزہ دار کو عنایت فرمائیں گے ، چنانچہ حدیث قدسی میں ارشاد ہے :
“روزہ میرا ہے اور میں ہی اس کا بدلہ دوں گا۔”(صحیح بخاری )
ویسے تو نمازروزہ اور دیگر سب عبادات اللہ تعالیٰ کی ہیں اور اسی کو راضی اور خوش کرنے کے لئے سب عبادات کی جاتی ہیں ، مگر روزہ ایک عجیب خصوصیت اپنے اندر رکھتا ہے ، وہ ریا اور دکھلاوے سے بالکل دور ، غیروں کی نظر سے پوشیدہ اور بندہ اور معبود کے درمیان ایک راز ہے ، یہاں تک کہ روزہ دار اور اللہ تعالیٰ کے علاوہ کسی دوسرے شخص کو صحیح طورپر اس کا علم بھی نہیں ہوتا، کیونکہ روزہ کی کوئی ظاہری صورت اور محسوس علامت نہیں ہوتی جس کی وجہ سے دیکھنے والوں کو اس کا علم ہوسکے ۔اسی وجہ سے اللہ تعالیٰ نے اس کا بدلہ اور ثواب دینے میں بھی خصوصی اور رازدارانہ طریقہ اختیار کیا ہے کہ براہِ راست بغیر کسی واسطہ کے روزہ دار کو اس کا بدلہ عطافرمائیں گے اور فرشتوں کو بھی اس کی اطلاع نہیں ہوگی ۔
روزے کے فضائل احادیث طیبہ میں
رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے متعدد احادیث میں روزے کے فضائل بیان فرمائے ہیں ، مثلاً :
۱۔۔۔ حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا : انسان کے ہر عمل کا اجر دس گناسے سات سو گنا تک بڑھادیا جاتا ہے ، لیکن روزہ کے بارے میں اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے کہ روزہ اس قانون سے مستثنیٰ ہے کیونکہ وہ خاص میرے لئے ہے اور میں ہی اس کا بدلہ دوں گا، کیونکہ بندہ میری وجہ سے اپنی خواہشات کو اور کھانے پینے کو چھوڑدیتا ہے ۔(صحیح مسلم)
۲۔۔۔ حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ ،نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے روایت فرماتے ہیں کہ میری امت کو رمضان شریف کے بارے میں پانچ چیزیں مخصوص طورپر دی گئی ہیں جو پہلی امتوں کو نہیں ملیں :
۱۔۔ اُن کے منہ کی بدبو اللہ تعالیٰ کے نزدیک مشک سے زیادہ پسندیدہ ہے ۔
۲۔۔ان کے لئے دریا کی مچھلیاں دعا کرتی ہیں اور افطار کے وقت تک کرتی رہتی ہیں۔
۳۔۔ جنت ہر روز ان کے لئے آراستہ کی جاتی ہے ، پھر حق تعالیٰ شانہ فرماتے ہیں کہ قریب ہے کہ میرے نیک بندے (دنیا کی) مشقتیں اپنے اوپر سے پھینک کر تیرے پاس آئیں ۔
۴۔۔ اس میں سرکش شیاطین قید کردئے جاتے ہیں کہ وہ رمضان میں اُن برائیوں کی طرف نہیں پہنچ سکتے جن کی طرف غیر رمضان میں پہنچ سکتے ہیں ۔
۵۔۔رمضان کی آخری رات میں روزہ داروں کے لئے مغفرت کی جاتی ہے ، صحابہ کرام ؓ نے عرض کیاکہ یہ شبِ مغفرت ، شبِ قدر ہے ؟ فرمایا : نہیں ! بلکہ دستور یہ ہے کہ مزدور کو کام ختم ہونے کے وقت مزدوری دے دی جاتی ہے ۔(ترغیب)
۳۔ حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: جس نے ایمان کے ساتھ اور ثواب کا یقین رکھتے ہوئے ، رمضان کے روزے رکھے اس کے پچھلے گناہ معاف کردئے جائیں گے ۔(صحیح بخاری )
۴۔۔حضرت سہل رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشادفرمایا : جنت میں ایک دروازہ ہے جس کا نام “ریان” ہے ، قیامت کے دن اس دروازے سے صرف روزہ دار داخل ہوں گے ، ان کے علاوہ کوئی اور اس دروازے سے داخل نہ ہوسکے گا، اعلان ہوگا کہ روزہ دار کہاں ہیں ؟ چنانچہ روزہ دار کھڑے ہوں گے اور جب وہ اس دروازے سے داخل ہوجائیں گے تو دروازہ بند کردیا جائے گااور کوئی داخل نہ ہوسکے گا۔(صحیح بخاری)
اس کے علاوہ بھی احادیثِ طیبہ میں روزہ کے متعدد فضائل بیان ہوئے ہیں ، اس لئے ہر عاقل وبالغ مسلمان پر لازم ہے کہ رمضان المبارک کے فرض روزے رکھنے کا پورا اہتمام کرے ، اور معمولی معمولی باتوں اور مشقتوں کا بہانہ کرکے ہرگز روزہ نہ چھوڑے ، کیونکہ بلاعذرِ معتبر فرض روزہ چھوڑنا گناہِ کبیرہ ہے اور احادیثِ مبارکہ میں بلاعذر روزہ نہ رکھنے والے کے لئے وعیدیں آئی ہیں ، ذیل میں چند احادیث طیبہ ملاحظہ فرمائیں !
فرض روزہ نہ رکھنے کی مذمت احادیثِ طیبہ میں
حدیث نمبر ۱
عن ابی ہریرۃ رضی اللہ عنہ قال :قال رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم “من أفطر یوما من رمضان من غیر رخصۃ ولا مرض لم یقض عنہ صوم الدھر کلہ وان صامہ “(مشکاۃ )
ترجمہ : حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا : جو شخص (قصداً ) بلاکسی شرعی عذر کے (یعنی شرعاً اسے روزہ چھوڑنے کی اجازت نہ تھی اور روزہ سے عاجز کرنے والا مرض بھی نہ تھا پھر بھی وہ ) رمضان کا روزہ چھوڑدے تو رمضان کے علاوہ چاہے عمر بھر روزے رکھے وہ اس کا بدلہ نہیں ہوسکتا ۔(مشکوۃ)
تشریح
رمضان المبارک کا مہینہ اللہ تعالیٰ نے فرض روزوں کے لئے مخصوص کردیا ہے ، اب اگر کوئی شخص اپنی بدبختی سے اس مہینہ میں روزہ چھوڑدے تو اس کے اعمال نامہ میں گناہِ کبیرہ تو لکھا ہی جائے گا، اور روزہ کے عظیم ثواب اور خیر وبرکت سے محرومی اس کے علاوہ ہوگی جو بہت بڑا نقصان ہے ، اس کے علاوہ یہ بھی نقصان ہے کہ ایک روزہ کے عوض اگر عمر بھر بھی روزے رکھے تب بھی وہ فضیلت حاصل نہ ہوگی جو رمضان میں روزہ رکھنے سے حاصل ہوتی ہے ، یہی وجہ ہے کہ مذکورہ بالا حدیث کی وجہ سے بعض علماء کا مذہب یہ ہے کہ رمضان کے روزہ کی قضا ہوہی نہیں سکتی چاہے عمر بھر روزہ رکھتا رہے ، البتہ جمہور فقہاء کرام ؒ کے نزدیک اگر رمضان کا روزہ رکھا ہی نہیں تو ایک روزہ کے بدلے ایک روزہ سے قضا ہوجائے گی ، اور اگر روزہ رکھ کر بلاعذرِ معتبر توڑ دیا تو قضاء کے ایک روزے کے علاوہ دومہینے لگاتار کفارہ کے روزے رکھنے سے فرض ذمہ سے ساقط ہوجائے گا، لیکن اتنی بات پر سب کا اتفاق ہے کہ وہ برکت اور فضیلت جو رمضان المبارک کی ہے وہ ہاتھ نہیں آسکتی ۔
حدیث نمبر ۲
عن جابر بن عبداللہ قال : قال رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم “من ادرک رمضان ولم یصمہ فقد شقی، ومن ادرک والدیہ او احدھما فلم یبرہ فقد شقی، ومن ذکرت عندہ فلم یصل علی فقد شقی” (مجمع الزوائد ومنبع الفوائد ۳؍۱۳۹)
ترجمہ : حضرت جابر بن عبداللہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : جس شخص نے رمضان کا مہینہ پایا اور روزے نہیں رکھے وہ بدبخت ہے ، اور جس شخص نے اپنے والدین دونوں یا ایک کو پایا اور ان کی فرمانبرداری نہیں کی وہ بدبخت ہے ، اور جس کے سامنے میرا ذکر ہو اور وہ مجھ پر درود نہ بھیجے وہ بھی بدبخت ہے ۔ (مجمع الزوائد )
حدیث نمبر ۳
عن سلیم بن عامر أبی یحی الکلاعی ، قال : حدثنی ابو امامۃ الباھلی ، قال : سمعت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم یقول : “بینا أنا نائم اذ أتانی رجلان فاخذا بضبعی ، فأتیابی جبلا وعرا، فقالا لی: اصعد، فقلت : انی لا أطیقہ ، فقالا : انا سنسھلہ لک ، فصعدت ، حتی اذا کنت فی سواء الجبل ، اذا أنا بأصوات شدیدۃ ، فقلت : ما ھذہ الاصوات؟ قالوا : ھذا عواء أھل النار ، ثم انطلق بی ، فاذا أنا بقوم معلقین بعراقیبھم ، مشققۃ أشداقھم ، تسیل أشداقھم دما، قال:قلت: من ھؤلاء ؟ قال : ھؤلاء الذین یفطرون قبل تحلۃ صومھم”(السنن الکبری للبیھقی ۔ ۴؍۳۶۵)
ترجمہ : حضرت ابوامامہ رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو یہ فرماتے ہوئے سنا کہ آپ نے فرمایا: ایک مرتبہ میں سورہا تھا ، میرے پاس دو آدمی آئے ، انہوں نے مجھے میرے بازوؤں سے پکڑا اور مجھے ایک دشوار گزار پہاڑ پر لے آئے اور وہاں پہنچ کر مجھ سے کہنے لگے کہ اس پر چڑھئے ، میں نے کہا کہ مجھ میں اس کی طاقت نہیں ہے ، وہ کہنے لگے کہ ہم آپ کے لئے سہولت پید اکردیتے ہیں، چنانچہ میں اس پہاڑ پر چڑھنے لگا، جب میں درمیان میں پہنچا تو بڑی شدید آوازیں آئیں ، میں نے (اپنے ساتھیوں سے ) کہا : یہ آوازیں کیسی ہیں ؟انہوں نے بتایا کہ اہلِ جہنم کا شوروغل ہے ، پھر وہ مجھے آگے لے کر چلے ، اچانک میں کچھ لوگوں کے پاس پہنچا جو ایڑیوں کے بل لٹکے ہوئے تھے اور ان کے جبڑے چھلے ہوئے تھے جن سے خون بہ رہا تھا ، میں نے پوچھا کہ یہ کون لوگ ہیں ؟ انہوں نے بتایا کہ یہ وہ لوگ ہیں جو روزہ کا وقت پورا ہونے سے پہلے ہی روزہ کھول لیتے ہیں۔(سنن کبریٰ )
حدیث نمبر ۴
عن ابن عباس رضی اللہ عنہما قال حماد بن زید ولا أعلمہ الا قد رفعہ الی النبی صلی اللہ علیہ وسلم قال عری الاسلام وقواعد الدین ثلاثۃ علیھن اسس الاسلام من ترک واحدۃ منھن فھو بھا کافر حلال الدم شھادۃ أن لاالہ الا اللہ والصلاۃ وصوم رمضان رواہ أبو یعلی باسناد حسن ورواہ سعید بن زید اخو حماد بن زید عن عمرو بن مالک النکری عن أبی الجوزاء عن ابن عباس مرفوعا وقال فیہ من ترک منھن واحدۃ فھو باللہ کافر ولایقبل منہ صرف ولا عدل وقد حل دمہ ومالہ ۔(الترغیب والترھیب للمنذری ۱؍۲۱۵)
ترجمہ : حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہما رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے نقل فرماتے ہیں : اسلام کی اساس اور بنیاد تین چیزیں ہیں جن پر اسلام کی بنیاد قائم ہے ، جو شخص ان میں سے کسی ایک کو بھی چھوڑ دے گا وہ کافر ہے اور اس کا خون حلال ہے : (۱۔کلمۂ توحید کی شہادت۲۔ فرض نماز ۳۔ رمضان کا روزہ )
ایک روایت میں ہے کہ جو شخص ان میں سے کسی کو بھی چھوڑدے گا وہ کافر ہے اس کی کوئی عبادت مقبول نہیں ۔(ترغیب)
تشریح
مذکورہ بالاحدیث میں روزہ نہ رکھنے والے کو کافر بتایا گیا ہے ، علماء کرام نے اگر چہ اس کا فرہونے کو انکار کرنے کے ساتھ مقید کیا ہے کہ جو روزہ کا انکار کرے وہ مسلمان نہیں رہتا، اور جوشخص بلاعذر اس کو چھوڑ دے وہ کافر نہیں مگر سخت گنہگار اور فاسق ہے ۔لیکن اس میںکوئی شک نہیں کہ ایسے لوگوں کے لئے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے ارشادات بہت سخت ہیں ۔اس لئے فرائض کی ادائیگی میں کوتاہی کرنے والوں کو اللہ تعالیٰ سے بہت ڈرنا چاہیئے ۔
البتہ اگر شرعی عذر ہوتو مجبوری کی صورت میں رمضان کا روزہ چھوڑنے کی اجازت ہے ، ایسی صورت میں بعد میں قضاء کرنی ہوگی ۔اپنے عذر کی تفصیل کسی مستند مفتی کو بتاکر اس سے حکمِ شرعی معلوم کیا جاسکتا ہے ۔
اللہ تعالیٰ مسلمانوں کو روزہ کے فضائل وبرکات حاصل کرنے اور روزہ نہ رکھنے کے گناہ سے بچنے کی توفیق عطا فرمائے ۔ آمین!

٭٭٭٭٭٭٭٭٭

(ماہانہ البلاغ رمضان المبارک 1438ھ)